I am delighted to announce that another of my poems has been translated into Urdu by the esteemed Dr. Shoaib Ahmad from Panjab University. I am grateful for his precious insights and knowledge that bring my poems to new geographies and people.
آخری زمانے جیسی ویرانی
شیدا محمدی/شعیب احمد
میں ایک پرانی بس ہوں
جس میں بادلوں نے اپنے پوشیدہ حصے رکھ چھوڑے ہیں
اور زمین مُٹھی بھر خاک ہے اور چنار کے درخت!
یہاں تاحد نگاہ خواب ہیں اور راکھ ہے
اور کہیں رک جانے کی جگہ نہیں
سال ھا سال پہلے
کچھ متروک مسافروں نے
اپنے جسموں کے لوتھڑے اور اپنی بندوقیں
میرے لوہے کے بُرادے میں دفن کیں
اور کسی مختصر وقت میں کسی گم گشتہ کہکشاں کی طرف نکل گئے
اب ہمارے سنگ زادے سو سال کے ہو چکے ہیں
کچھ اور مسافر کسی اور دہشت کے ساتھ آئے ہیں
اور اپنے جوتوں کی نوک سےمیرے فرسودہ جسم کوٹُھڈے مارتے ہیں
لونڈوں نے اپنی خودکار بندوقوں سے میری شکل بگاڑ کے رکھ دی ہے
اور لڑکیوں نے اپنے خلائی لباس سےمیرے بدن پر خراشیں ڈال دی ہیں
کچھ اور دیو ھیکل بلڈوزر
ہمارے بچے کھچے حصوں کوگہرے گڑھوں میں پھینک دیں گے
اور چند نُوری سال بعد
مسلسل بجتے ہوئے سائرن کی آواز
زمین کے کان بہرے کر دے گی۰
❤
#sheida_mohamadi
#Dr.Shoaib.Ahmad
#Urdo
#translation
#poetry_translation
#poetry
#persian_poetry
#شیدامحمدی
#دکتر_شعیب_احمد
No comments:
Post a Comment