Thursday, October 5, 2023

ترجمه شعر «تنت هذیان تختم باشد» به زبان اردو


ترجمه شعر «تنت هذیان تختم باشد» به زبان اردو . سپاس از ترجمه زیبا و زیبنده دکتر شعیب احمد. م

تمہارا جسم میرے بستر کا ہذیان ہے
شیدا محمدی/شعیب احمد
مجھے ڈر ہے کہ ان سردیوں میں تم سے مل نہ پاؤں
اور تمہاری کٹیا کے منہ پر پتوں کا ڈھیر ہو
اور مکڑی کے اتنے جالوں میں یہ چابی گھوم نہ پاۓ
اور دروازے سے کوا باہر جھانکے
مجھے ڈر ہے کہ تمہیں چھونے سے بادلوں میں تم پر سلوٹیں نہ پڑ جائیں
اور تمہاری آنکھیں بخارات بن جائیں
تمہارا جسم میرے بستر کا ہذیان بن جاۓ
میں پلٹ کر تمہیں بوسہ دوں اور تم طوفان کے خیال سے غبار بن جاؤ
میں تمہیں آواز دیتے ہؤۓ ڈرتی ہوں
کہ لوگ تمہارا خوبصورت نام نہ جان جائیں اور درختوں کی زبانیں کاٹ دیں
میں روتے ہوۓ کوئل بن کر کوکتی رہوں
میں ڈرتی ہوں کہ تم میری شادی پر آؤ میں پھولے نہ سماؤں اور آئینے سے باہر نکل آؤں
تم میرے لۓ مبارک کے سی مرغ اور چہل طوطی لاؤ
اور میں شیراز کےآئینہ ہال میں نہ ملوں گنبدِ گمی میں موجود ہوں
تم باد صبا کے ساتھ چلواور ہُد ہُد تمہیں قلعہ سیمرغ تک لے جاۓ
لیکن تم سباکےشیشوں کے انعکاس سے گزرتے ہوۓسورج اور چاند کی گردش میں مجھے ڈھونڈ لو
مجھے ڈر ہے کہیں یہ شاھنامہ نامکمل نہ رہ جاۓ
اژدہے تمہارے بستر کو ڈھونڈ نکالیں تمہارے پر جل جائیں اور وہ تمہاری خوشبو کے سیمرغ کو آئینے میں پہچان نہ پائیں
میں ڈرتی ہوں کہ تہمینہ نہ بن جاؤں اور تمہیں دوبارہ دیکھ ہی نہ سکوں
سہراب کا بازوبند کسی کو نظر ہی نہ آۓاور میرے بیٹوں کو تہران میں چھلنی کر دیا جاۓ
شمشاد کی یہ شاخیں دو منہ والے سانپ بن جائیں اور میں تمہیں دیکھنے کے لیے سراپا چشم ہو جاؤں
رستم نیزوں کے ہجوم میں رہ جاۓ اور بیژن کنویں میں
مجھے ڈر ہے کہ یہ سردیاں تم میری یادوں کے اندھیرے میں گزارو گے
تمہیں تین سال کی لڑکی ملے جوچاند کی لٹکتی سیڑھی سے آرام سے چمٹی ہوگی
اور اس کی ماں دھوپ میں جھلس رہی ہو گی
اور چاند کی تغاری میں اس کے کپڑے دھونے والا کوئی نہ ہوگا
میں ڈرتی ہوں کہ تم آنے والے دنوں میں نہ نکل جاؤ
میری بہن رات اور چاندنی کے سنگم پرمیرے پیٹ میں اپنا بچہ ڈھونڈ لے
ماسولہ کی سراۓ میں میرا ایک ایک بال تلاش کر لیا جاۓ
مجھے سیاہ پٹیوں میں لپیٹ کرافسانۂ بابا لیلا میں سنگسار کر دیا جاۓ
میں ڈرتی ہوں کہ تیس سال کی عمر والی تصویروں جیسی بن کے تمہارے خواب میں آؤں
تمہیں بھول جاۓ کہ میں بیوہ ہوں
تم میرے کپڑے اتارو اورمیری چھاتیوں کو دیکھو جو دو پورے چاند بن کر یوں چمک رہے ہوں جیسے ٹیساہارا کے تپتے میدانوں میں ماھتاب!
تمہیں محسوس نہ ہو کہ میرا جسم ایک دائمی خیال ہے،بازو جھومتے ہوۓبادل جواندھیرے کی طرف بڑھ رہے ہیں
میں ڈرتی ہوں کہ ان سردیوں میں بھی تم سے مل نہیں پاؤں گی
اور دور دیس کے خواب انگلیوں میں اور ناخنوں میں یوں سرسرانے لگیں جیسے کوئی قبر کھود رہا ہو
میں متوازی خطوط سے نکلوں میرے ہاتھ گیت گائیں
کسٹمز والوں کے پاس سے گزرتے ہوۓوہ تمہارے دل میں وحشی خوشبو بھانپ لیں
کپڑوں میں لپٹے ہوۓبوسے میرے بیگ سے نکال لیں
مجھے یہ اعتراف کرنے پہ مجبور کریں
کہ کووں کی پناہ گاہ کے بارے میں تم نے مجھے بتایا تھاپچھلی سردیوں میں
اور تب سے میرے جسم سےانار کے صابن کی خوشبو آ رہی ہے.

No comments: